Iqra Aziz

Add To collaction

17-Sep-2022-تحریری مقابلہ : " راہِ راست "

" راہِ راست "

از اقراء عزیز

" کسی کے آگے اتنا مت جھکو کہ اللہ کے آگے جھکنے کا وقت ہی نہ ملے۔ "
اس ایک جملے نے جیسے اس کی دنیا ہلا کر رکھ دی تھی۔
" کیا مطلب؟ "
" مطلب واضح ہے کہ تم احتشام کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہی ہو۔ "
وہ دونوں یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں بیٹھی تھیں۔ جب ثمرہ نے اس سے کہا۔
" تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو ثمرہ؟ تم..تم جانتی ہو کہ وہ میرا ہونے والا شوہر ہے۔ "
صفا کو اس کی بات نے چونکنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ حیران ہی تو رہ گئی تھی کہ اس کی دوست یہ کیا کہہ رہی تھی۔ ثمرہ جانتی تھی کہ وہ کبھی کسی مرد کو اہمیت نہیں دیتی تھی۔ یونیورسٹی میں بھی اس نے کسی لڑکے کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔ اور اس کی منگنی اپنے کزن احتشام سے ایک سال پہلے ہوچکی تھی۔
" ہونے والا شوہر ہے، ہوا نہیں ہے۔ فی الحال وہ تمہارا منگیتر ہے اور میں دیکھ رہی ہوں تم اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہی ہو۔ " ثمرہ اسے نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولی۔
صفا نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے سیاہ حجاب کے ہالے میں دمکتے چہرے پہ ہنوز نرمی کا تاثر تھا۔
" تو تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟ اب جب وہ ناراض ہو تو اسے مناؤں نہیں...اسے اس کے حال پہ چھوڑ دوں؟ "
" ہاں! رہنے دو اسے اس کے حال پہ۔ وہ تمہار لیے ایک نا محرم ہے۔ تم اسے جتنی اہمیت دوگی اتنا اپنے لیے گھاٹے کا سودا کروگی۔ ہاں جب وہ تمہارا محرم بن جائے اور تمہاری کسی بات پر وہ تم سے خفا ہو، تب تم جب چاہے اسے منا لینا۔ "
" مگر ہم رات کو دیر تک باتیں کرتے ہیں، ایک دوسرے سے ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ میں ایک دم اس سے یوں رابطہ ختم کروں گی تو وہ غلط فہمی کا شکار ہوگا۔ "
وہ پریشان نظر آرہی تھی۔
" اچھا تو رات دیر تک تم اس سے باتیں کرتی ہو؟ اور شاید تمہیں یاد ہوگا کہ پہلے تم رات کے اسی وقت میں تہجد پڑھا کرتی تھیں؟ " اس نے سوالیہ ابرو اُٹھائی۔
ثمرہ کی بات پہ اس کا شرم سے زمین میں دھنس جانے کا دل چاہا۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی۔ جو وقت وہ پہلے اللہ کی عبادت میں لگاتی تھی۔ اب وہی وقت وہ احتشام کے پیچھے لگارہی تھی۔ بلکہ ضائع کر رہی تھی۔
وہ ثمرہ کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکی۔ اس لمحے وہ اتنی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی۔ سو وہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ آئی۔ گھر پہنچنے تک اسے ایک عجیب قسم کی بے چینی نے آں گھیرا تھا۔
" کسی کے آگے اتنا مت جھکو کہ اللہ کے آگے جھکنے کا وقت نہ ملے۔ "
ثمرہ کی آواز اب تک اس کے کانوں میں اپنی تمام تر قوت کے ساتھ گونج رہی تھی۔
مگر دل کے اندر ایک کونے میں وہ یہ بات جانتی تھی کہ ثمرہ اس کی ایک اچھی دوست اور اس کی خیر خواہ ہے۔ وہ اس کی بہتری کے لیے ہی یہ سب کہہ رہی تھی۔
دو دن یونہہ گزر گئے۔ اس نے احتشام سے کوئی بات نہیں کی۔
اگلے دن یونیورسٹی میں وہ ثمرہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ لیکچر کے دوران وہ دونوں خاموش رہیں۔
پھر کیفیٹیریا میں ثمرہ کے ساتھ بیٹھتے ہی صفا اُس کا شکریہ ادا کرنے لگی۔
" شکریہ ثمرہ! "
" کس لیے؟ "
ثمرہ کی آنکھوں میں تحیر ابھرا۔
" تم جانتی ہو اس دن گھر جانے کے بعد میں نے تمہاری باتوں کے بارے میں بہت سوچا۔ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی سکون میسر نہیں تھا۔ پھر جب میں نے تمہاری بات پہ عمل کرنے کا سوچا تو میرے دل نے جیسے وہ ایک فیصلہ کرتے ہی سکون پالیا۔ "
وہ پُرسکون انداز میں بولی۔ ثمرہ نے محسوس کیا تھا کہ آج اس کے چہرے پہ اس دن والی بے بسی اور شرمندگی نہیں تھی۔ اب اس کے چہرے پہ ایک سکون تھا، اطمینان تھا۔
" صفا! تم میری دوست ہو۔ اور میں تمہیں یوں جانتے بوجھتے کسی اندھے کنویں میں گرتے نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے اول روز سے تمہارے منگیتر احتشام کا یہ ہر دن تم سے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ خفا ہوجانا سخت ناپسند تھا۔ مگر میں اب تک تمہارے لیے خاموش رہی۔ پھر میں نے سوچا کہ مجھے خاموش رہنے کے بجائے تمہاری اصلاح کرنی چاہیے کہ شاید تم پہلے کی طرح راہِ راست پر آجاؤ۔"
وہ کہتے ساتھ ہی ہولے سے مسکرائی۔
" اور آج تم نے اپنے اس عمل سے ثابت کردیا کہ ایک اچھا دوست بھی اللہ کی کسی بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ تم نے دوستی کا حق ادا کیا ہے ثمرہ عرفان! "
وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی۔
یونیورسٹی سے واپسی پر صفا اسی اطمینان کے ساتھ گھر پہنچی۔ مگر اگلے ہی لمحے اس کا سارا اطمینان غائب ہوا۔ جب اس کی نظر لاؤنج میں بیٹھے احتشام پہ پڑی۔
" کیسی ہو صفا؟ اور کہا مصروف ہو۔ مجھ سے زیادہ بھی کوئی تمہارے لیے اہمیت رکھتا ہے جو تم پچھلے دو دنوں سے مجھے نظر انداز کر رہی ہو۔ "
وہ اس کا حال پوچھتے ساتھ ہی شکایتی انداز میں بولا۔
" میں ٹھیک ہوں۔ اور ہاں! تم سے زیادہ بھی میرے لیے کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ بہت زیادہ۔ "
وہ گہری سانس لے کہنے لگی۔
" اوہ اچھا! تو اب تمہیں میری ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں رہی؟ " وہ سخت خفگی سے کہہ رہا تھا۔
یہ اس کا وہی خفا انداز تھا جس کے پیچھے صفا عمران نے گزرا ایک سال اپنی تعلیم اور گھر والوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے اس ایک شخص کے پیچھے ضائع کردیا تھا۔
اور سب سے بڑھ کر وہ اپنے اللہ کی عبادت سے غافل ہونے لگی تھی۔ پتہ نہیں اس کی عقل پہ پردے کیوں پڑ گئے تھے؟ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
مگر شُکر تھا کہ اب بھی اتنی دیر نہیں ہوئی تھی۔ ثمرہ نے اسے گمراہی کے راستے کی جانب بڑھتے دیکھ کے بر وقت اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے راہِ راست پہ لانے کی کوشش کی تھی۔
"ہاں! اب مجھے تمہاری ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں۔ بس میں بہت جھک گئی تمہارے آگے احتشام! اب مجھے صرف میرے اللہ کے آگے جھکنے ہے نہ کہ انسانوں کے آگے۔ "
وہ پُر اعتماد انداز میں کہتے ساتھ ہی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔

                                    ************

   12
5 Comments

fiza Tanvi

21-Sep-2022 02:54 PM

Bahut khubsurat likha he you are the best

Reply

Gunjan Kamal

21-Sep-2022 02:08 PM

V nice

Reply

Natash

21-Sep-2022 01:53 PM

Aap kafi best writer hai

Reply